Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر4

"یہ لیں سر۔۔۔یہ کچھ دن پہلے کی کلپس ہیں۔۔۔جب وہ لڑکی ریسٹورنٹ میں تھی" تیمور اسے تصویریں دکھاتے ہوئے بتانے لگا "اور" اس نے ان تصاویر کو ایک طرف رکھ کر پوچھا تو تیمور گڑبڑایا "سر۔۔۔اور۔۔۔اور تو ابھی نہیں ہیں۔۔۔باقی انکوائری کرنی ہے ابھی" تیمور نے کالر ٹھیک کرتے ہوئے کہا جس پر اس نے کانچ جیسی کالی آنکھیں اٹھا کر تیمور کو دیکھا "اور کیوں نہیں بنائیں؟" اس نے بلکل ٹھنڈے لہجے میں پوچھا "وہ۔۔۔سر ٹائم۔۔۔ہاں ٹائم نہیں ملا سر۔۔۔" وہ سوچ کر بہانہ کرنے لگا،اصل وجہ تو یہیں تھی کہ اسکا دل نہیں کررہا تھا کیونکہ نتاشہ اور ادیان،دونوں کے بارے میں انکوائری کر کر کے وہ تھک گیا تھا مگر اب تک کوئی خاص سراغ نہیں ملا تھا اسے۔ تیمور کے بہانے پر اسکی آئیبرو پر بل پڑے وہ یونہی اسے دیکھ رہا تھا اسکی کالی آنکھوں میں واضح ناگواری دیکھ کر تیمور نے اپنی نظریں اِدھر اُدھر گھومائیں،اندر ہی اندر ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ اپنی سرد آنکھوں سے ہی نہ مار ڈالے اسے۔ "سڑک پر لڑکیوں سے پتھر کھانے سے فرصت ملے تو کچھ انکوائری بھی کرلینا ڈھنگ سے۔۔۔" اسکی بات پر تیمور نے جھٹکے سے اسکی طرف دیکھا،اسے کیسے معلوم ہوا۔ "سر آپ کو۔۔۔" "جتنا کہا ہے اتنا کیا کرو۔۔۔فضول سوال پسند نہیں مجھے" اس نے سختی سے کہا جس پر تیمور کا منہ بن گیا وہ خفگی سے اثبات میں سر ہلا کر جانے لگا تبھی اسکے ٹوکنے پر رکا "بات سنو" "جی سر" تیمور نے ناراض نظروں سے اس درندے کو دیکھ کر پوچھا "اپنا آئی کارڈ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا کرو اور بلا ضرورت ہر کسی کو نہیں بتایا کرو کہ تم ایک سیکریٹ ایجنٹ ہو" اب کی بار تیمور کی آنکھیں ابلنے کو ہوئیں،وہ کیسے ہر کچھ جان لیتا تھا، "پر سر" وہ حیرت سے بولنے لگا "تم جاسکتے ہو" کہتے ساتھ ہی وہ راکنگ چئیر سے ٹیک لگاگیا تو تیمور سر کھجاتا ہوا وہاں سے چلاگیا۔تیمور کے جانے کے بعد اس نے سیدھے ہوتے ہوئے ٹیبل سے تیمور کی دی ہوئی ایک تصویر اٹھائی،وہ تصویر جس میں ادیان نے نتاشہ کو دونوں بازوؤں سے سنبھالا ہوا تھا،اس نے تصویر پر نظریں گاڑے جیب سے لائیٹر نکالا پھر سیگریٹ سلگاتے ہوئے اسی لائیٹر سے اس تصویر کا کونا جلایا،پھر خاموشی سے وہ جلتی ہوئی تصویر ہاتھوں میں لیے دیکھنے لگا،جب تک وہ مکمل نہیں جل گئی تب تک اس نے تصویر کو چھوڑا نہیں،آخر میں راکھ اسکی انگلی پر لگا جسے وہ استہزاء نظروں سے انگلی مسلتا ہوا دیکھنے لگا۔ پھر اس نے نتاشہ کی ایک مسکراتی تصویر اٹھائی اور بغور اسکا ایک ایک نقش دیکھنے لگا۔ "ڈارلنگ۔۔۔تمہاری زندگی موت سے بھی بدتر نہ بنادی میں نے تو میرا نام بھی۔۔۔۔" اپنا جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔مگر یہ قہقہہ کھوکھلا تھا،بلکل زخمی اور یہ سچ ہی تھا کہ وہ درندہ زخمی شیر کی طرح تڑپ رہا تھا اس بےخبر لڑکی کی زندگی جہنم بنانے کے لیے پر اب بس تھوڑا سا انتظار رہ گیا تھا بس تھوڑا سا، اس نے ایک نظر اپنی مضبوط کلائی پر بندھی واچ پر ٹائم دیکھا،اسے نکلنا تھا ابھی،سیگریٹ کا آخری کش لے کر وہ اسے ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے اٹھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ویسے تم ہو بہت بڑی چیٹر۔۔۔" ادیان نے مسکراتے ہوئے نتاشہ کو کہا بہت ہمت کر کے اس نے ادیان سے گھر آنے کا کہا تھا جس پر اس نے تھوڑے بہت سوال کیے پر نتاشہ کی آگے سے خاموشی پر وہ اسکے گھر پر آیا تھا اور اب طاہر علوی سے بات کرنے اور اسکے نتاشہ کے لیے پروپوزل کو ایکسیکپٹ کرنے کے بعد اسے ساری بات سمجھ آئی تھی۔ "ایسے تو نہ کہیں۔۔۔" وہ بوکھلاتے ہوئے بولی تھی کیونکہ طاہر علوی ابھی ضروری کال آنے پر ادیان سے ایکسکیوز کر کے ڈرائینگ روم سے نکلے تھے۔ "کیوں نہ کہوں،پہلے تو بولتی تھی کہ مجھے زرا نہیں پسند آپ اور اب ڈائریکٹ گھر پر رشتہ ہی منوابیٹھی۔۔۔" وہ بولتے ساتھ ہنسا تھا نتاشہ کے بری طرح بلش ہونے پر،وہ لب دانتوں میں دبائے خود کا چہرہ سرخ نہ ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی،ادیان نے دلچسپی سے یہ منظر اپنی آنکھوں میں اتارا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیمور آج شام کو پھر ادیان کے آفس میں آیا تھا،ویسے تو یہ آف ہونے کا ٹائم تھا پر "Z" کی دھمکی پر وہ مجبوراً آیا تھا یہاں پر،لیکن ادیان کے آفس پر نہ ہونے کی وجہ سے ابھی وہ جب سے نیچے کیفیٹ ایریہ میں بیٹھا برگر کھا رہا تھا ساتھ ہی اسکی نظر انٹری پر تھی کہ اگر آف ہونے تک ادیان آگیا تو وہ تھوڑی بہت ہی صحیح پر انفورمیشن کلیکٹ تو کر ہی لے گا۔ابھی وہ برگر کھاتے ہوئے انہی سوچوں میں تھا کہ انٹری سے اسے ادیان اندر آتا ہوا دِکھا،تیمور جلدی سے ہالف برگر چھوڑتے ہوئے اٹھا، اسکے پیچھے اوپر آنے پر تیمور نے دیکھا کہ ادیان سیدھا اپنے وارڈ میں جاکر بیٹھ گیا پھر لیپ ٹاپ بیگ سے نکال کر اون کرنے کے بعد اس میں کچھ کام کرنے لگا،چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اسکے برابر ہی میں زین آکر بیٹھا تھا،ناجانے کیوں تیمور کو لگا جیسے زین نے اسے دیکھ لیا ہو پر اگنور کرتا ہوا ادیان کے پاس گیا تھا،اپنی سوچ جھٹک کر تیمور بغور ان لوگوں کو دیکھنے لگا، "اوہ۔۔۔آگئے تم۔۔۔" ادیان نے زین کو دیکھتے ہی مسکراکر کہا جس پر زین نے ایک خاموش نظر اس پر ڈالی "برو۔۔۔تمہیں ایک امپورٹنٹ بات بتانی ہے۔۔۔۔یا کہہ لو۔۔۔جیسے انوائیٹ کرنا ہے۔۔۔" ادیان نے اپنا رخ مکمل اسکی طرف کر کے بولا مگر زین یونہی اپنے لیپ ٹاپ پر مسلسل کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔ "تمہیں یاد ہے وہ لڑکی۔۔۔جسکے بارے میں تم نے ریسٹورنٹ میں پوچھا تھا مجھ سے۔۔۔" اس بات پر زین کے ٹائپنگ کرتے ہاتھ رکے تھے "اس سے میری منگنی ہو رہی ہے۔۔۔پرسوں لازمی آنا تم علوی مینشن میں۔۔۔وہی وینیو ہے" ادیان اپنی ہی دھن میں بول رہا تھا جبکہ زین اب کی بار بھنچے جبڑوں سے اسے دیکھنے لگا تھا،کچھ دور کھڑا تیمور بھی حیرت زدہ تھا ادیان کی بات سُن کر نہیں بلکہ زین کے ایکسپریشن دیکھ کر جو شاید اپنے اندر ابلتے غصے کو کنٹرول کرنے کی بمشکل کوشش کر رہا تھا۔۔۔پھر جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ "کیا ہوا۔۔" ادیان نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھا "کچھ نہیں۔۔۔میں لیٹ ہورہا ہوں گھر کے لیے۔۔۔چلتا ہوں" زین نے لب بھینچے ہوئے کہا "ارے پر ابھی تو تم آئے" ادیان کی بات ادھوری ہی رہ گئی کیونکہ زین اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنا لیپ ٹاپ یونہی بغیر بیگ کے اٹھائے وہاں سے تیز قدم اٹھاتا ہوا چل دیا،تیمور جو بغور ان لوگوں کی ایک ایک حرکات و سکنات پر نظر رکھا ہوا تھا،زین جاتے ہوئے اس کے برابر میں آکر رکا تھا، اور ایک ناگوار نظر اس پر ڈالی،جس پر تیمور سیٹی کی دُھن بجاتا ہوا نگاہ پھیرتے ہوئے تھوڑا سائیڈ ہٹ گیا،پر اچانک اس نے گرنے سے خود کو بچایا جب زین اسکے کندھے کو تقریباً دھکا دیتے ہوئے نکلا تھا وہاں سے،تیمور بےیقینی سے اسکی پشت کو دیکھنے لگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج علوی مینشن میں ادیان اور نتاشہ کی منگنی کا فنکشن رکھا گیا تھا جس میں شہر کے کئی نامور لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔۔۔طاہر علوی نے کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی،آخر کو انکی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کی شادی تھی،ہلکے بیچ رنگ کی لانگ فراک پر لائٹ سے میک اپ میں ہی نتاشہ بلا کی حسین لگ رہی تھی اور حسین کیوں نا لگتی خوشی جو پھوٹ رہی تھی اسکے خوبصورت چہرے پر سے۔۔۔۔آج وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی کیونکہ جو وہ چاہ رہی تھی وہی ہورہا تھا جسے چاہتی تھی آج اسکی مہر لگتی نتاشہ پر۔۔۔۔وہ آج بے حد خوش تھی پر دوسری طرف ادیان کا آج موڈ تھوڑا آف تھا وجہ طاہر علوی کی وہ آفر تھی جس کے لیے وہ بلکل راضی نہ تھا،طاہر علوی نے اسے شادی کے بعد اپنے ہی گھر پر رہنے کا کہا تھا اور ادیان جیسے خوددار انسان کے لیے گھر جمائی بننا اپنی انا کو گرانے کے برابر تھا اور یہ وہ کبھی نہیں کرتا،اسکے آفر ریجیکٹ کرنے پر طاہر علوی اب اس سے تھوڑا کھنچے کھنچے سے تھے پر اسے پرواہ نہیں تھی۔ تیمور جو نوکر کا بھیس بدل کر علوی مینشن میں پیچھے کے راستے سے بمشکل اندر داخل ہوا تھا،ابھی وہ نتاشہ اور ادیان پر ہی نظر رکھے کھڑا تھا،پھر کچھ سوچ کر وہ کونے میں بنے بار پر آیا اور ایک جوس کا گلاس اٹھا کر پینے لگا۔ "تم" نسوانی آواز پر تیمور نے گردن گھما کر دیکھا مگر اگلے ہی لمحے اسکے منہ میں بھرا جوس فوارے کی شکل میں پورا مقابل کے کپڑوں میں گرا تھا۔ یمنا جو لائٹ مرجنڈہ کلر کا ڈریس زیب تن کیے گیسٹ سے مل رہی تھی،اسے بار میں کھڑے ایک سرونٹ پر شک ہونے لگا تھا جو کام کم کررہا تھا اور لوگوں کو زیادہ گھور رہا تھا،اپنا شک دور کرنے ہی وہ اسکے قریب آئی پر اسے زرا ہی دیر لگی تھی اسے پہچاننے میں،ابھی یمنا نے اسے مخاطب ہی کیا تھا مگر اگلے پل وہ اپنے داغ دار سوٹ کو دیکھ رہی تھی جو سامنے کھڑے لڑکے کی ہی مہربانی تھی۔ "یُو ایڈیٹ۔۔۔" یمنا نے سوٹ پر سے نظر ہٹا کر اب غصے سے تیمور کو دیکھا "کون ایڈیٹ۔۔۔اور کون ہیں آپ میڈم" اپنی چوری پکڑانے پر تیمور بوکھلاتے ہوئے بولا ساتھ ہی اپنی نقلی گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر چیک کرنے لگا،کیسے اس لڑکی نے اسے پہچان لیا۔ "تم ایڈیٹ۔۔۔تم لوفر۔۔۔تم لنگووور۔۔" اس بار یمنا نے غصے میں آگے بڑھتے ہوئے آواز کو تھوڑا بلند کر کے کہا کہ آس پاس کے چند لوگ انہیں دیکھنے لگے۔ میں لنگور۔۔۔میں لوفر۔۔۔خود کو دیکھا ہے انگور جیسی تو شکل ہے بلکہ غلط کہا میں نے۔۔۔انگور بھی لاکھ گنا بہتر ہے تم سے یُو یُو بندریا۔۔۔۔ تیمور سے کہاں برداشت ہوا لوگوں کے سامنے ذلیل ہونا تبھی اپنی ڈیوٹی بھلائے وہ اس سے اسی کی ٹُون میں حساب بےباک کرنے لگا "اگر اتنی ہی بری ہوں تو میرا پیچھا کر کے یہاں تک کیوں آئے تم چِیپ بوائے۔۔۔" وہ مٹھیاں بھینچے کہنے لگی جبکہ تیمور اب حیرت سے اس خوش فہم لڑکی کو دیکھنے لگا جو اسکے یہاں آنے کا اپنے دماغ سے ہی مطلب نکالے بیٹھی تھی۔ "شکل تو تمہاری ہے ایسی نہیں کہ کوئی پیچھا کرے تمہارا اور آئیں بڑی خود پر گھمنڈ کرنے والی۔۔۔" وہ تپ کر اسے سر تاپیر دیکھتے ہوئے بولا پہلے تو وہ اسے تپا ے کے لیے بول رہا تھا پر اب وہ لڑکی اسے زہر لگ رہی تھی جو یوں لوگوں کے سامنے اسکی،میجر تیمور کی امیج خراب کر رہی تھی۔ "تم۔۔۔تم رکو۔۔۔ابھی بتاتی ہوں تمہیں میں۔۔۔زرا پہلے اپنا ڈریس صاف کرلوں۔۔۔" یمنا کلس کر بولتے ہوئے اپنے ڈریس کو دیکھنے لگی پھر اسے گھورتے ہوئے وہاں سے گئی،تبھی تیمور جوس کا گلاس ایک طرف رکھ کر پیچھے ہٹنے لگا تبھی وہ پیچھے کسی سے ٹکرایا، "ینگ مین آرام سے۔۔" طاہر علوی نے بھاری لہجے میں کہتے ہوئے تیمور کا کندھا تھپکا تو اس نے اپنے کندھے پر انکے بھاری ہاتھ کو دیکھا پر دوسرے ہی لمحے وہ بری طرح چکرایا کیونکہ طاہر علوی کی کلائی کے برابر میں بلکل وہی شیر بنا ہوا تھا جو اس نے زین کے بازو میں دیکھا تھا،طاہر علوی اسکا کندھا تھپتھپا کر وہاں سے چل دیے پر تیمور اب تک وہی کھڑا رہا۔ "اب یہ کیا جھول ہے" تیمور نے کہتے ساتھ غصے میں اپنے بال جکڑے پہلے ہی مسٹری سولوو نہیں ہورہی تھی اوپر سے اب یہ نیا چکر،اسے لگا وہ اب سچ میں پاگل ہو جائے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments